بین الاقومی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || اگرچہ طاقت کا استعمال بعض اوقات ضروری ہو سکتا ہے خاص طور پر اس وقت کہ جب یہ ایک بڑی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہو لیکن سخت اقدامات پر ضرورت سے زیادہ انحصار پہلے سامنے آنے والی تمام پیش رفت کو صفر کر سکتا ہے بلکہ یہ سیکیورٹی مسائل کے الٹ اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
اس دلیل کو مزید گہرائی سے دیکھنے سے پہلے، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے کس طرح دو بڑے شہروں کی حفاظت کے لئے کوشاں ہیں جوکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ہیں۔ بلوچستان ایک طویل عرصے سے جاری شورش کے ساتھ ساتھ اسلامسٹ عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے مسلسل خطرات سے نبرد آزما ہے۔
یہاں اہم نکتہ لندن اور پیرس کا موازنہ کرنا نہیں ہے جیسا کہ چارلس ڈکنز نے کیا تھا بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ کیوں دو پاکستانی شہروں کو ـ جنہیں سیکیورٹی کے لئے ایک جیسی رقم اور افرادی قوت ملتی ہے، ـ مختلف نوعیت کے سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے۔
ایک شہر زیادہ محفوظ ہے، جبکہ دوسرا نہیں ہے۔ ریاست خفیہ معلومات، تعیناتیوں اور چوکیوں پر زیادہ وسائل خرچ کرتی ہے۔ اس کے باوجود دہشت گرد کمزوریاں تلاش کرکے انہیں استعمال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
اسلام آباد میں حملے کم ہوتے ہیں جبکہ کوئٹہ زیادہ عسکریت پسندوں کی زد میں آتا ہے۔ دونوں شہروں کے رہائشی سیکیورٹی اداروں کی انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملیوں سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ یہ اقدامات ان کی معمولاتِ زندگی میں براہِ راست رکاوٹ بنتے ہیں اور مقامی کاروبار پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ سیکیورٹی ادارے عام طور پر اپنی احتیاطی حکمتِ عملی تشکیل دیتے وقت عوامی شکایات کو شاذ و نادر ہی مدنظر رکھتے ہیں۔
اسلام آباد اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے اعداد و شمار اس بات کا واضح اشارہ کرتے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کو اپنی احتیاطی حکمتِ عملیوں پر ازسرِنو غور کرنے اور انہیں جدید بنانے کی فوری ضرورت ہے۔
اسلام آباد میں جنوری 2021ء سے اب تک 6 دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں جن میں جاں بحق افراد کی تعداد 21 ہے۔ ان میں 11 نومبر کا حالیہ حملہ سب سے زیادہ مہلک تھا جس میں ضلعی کچہری کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں 12 افراد جان سے گئے۔ اسلام آباد میں اس سے پہلے ہونے والے حملے نسبتاً چھوٹے پیمانے پر تھے جوکہ شہر کے مضافات میں پیش آئے اور ان میں بنیادی طور پر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا جن میں سے زیادہ تر واقعات کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔
اس کے برعکس کوئٹہ میں اسی عرصے کے دوران 152 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 264 افراد جاں بحق ہوئے۔ کوئٹہ میں جن افراد کو ہدف بنایا گیا ان کی نوعیت بہت زیادہ متنوع تھی جن میں عام شہری، حکومتی اہلکار، سیکیورٹی فورسز، قبائلی سردار، مذہبی برادریاں اور ان کے رہنما اور سیاسی کارکن شامل تھے۔
حملہ آور بھی اتنے ہی متنوع تھے جن میں قوم پرست باغی گروہوں جیسے بلوچ ری پبلکن گارڈز، بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، اور بی آر اے ایس (جو بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر جی کا اتحاد ہے) کے ساتھ ساتھ اسلامسٹ عسکری اور فرقہ وارانہ تنظیمیں جیسے داعش خراساں/داعش پاکستان پرووینس، لشکرِ جھنگوی، ٹی ٹی پی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی شامل ہیں۔
یہ رجحان جاری ہے۔ صرف جنوری کے مہینے میں ہی کوئٹہ میں 32 حملے ہوئے جن میں 32 اموات ہوئیں اور ان حملوں میں ہدف اور حملہ آوروں کی یہی مختلف اقسام دیکھنے میں آئیں۔
اعداد و شمار واضح طور پر بتاتے ہیں کہ عسکری گروپس، ان کے ہدف اور ان کی حکمت عملی، گذرتے برسوں کے دوران بدل چکی ہیں۔ یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہیں کہ موجودہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملیاں کس قدر غیرمؤثر ہیں، چاہے وہ عملی اقدامات ہوں یا احتیاطی اقدامات جو زیادہ تر سیکیورٹی چیک پوسٹس، سیف سٹی نگرانی کے نظام اور انٹرنیٹ جام کرنے پر منحصر ہے۔
اسلام آباد میں حالیہ حملہ اس بات کی تلخ یاد دہانی ہے کہ دہشت گرد گروہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے قائم کردہ دفاعی حصار کو توڑ دیا ہے۔
کوئٹہ میں قدرتی طور پر خطرہ زیادہ ہے لیکن وفاقی دارالحکومت کے رہائشی مختلف وجوہات کی بنیاد پر زیادہ پریشان ہیں۔ انہیں سیکیورٹی کی بڑھتی ہوئی سطحوں، چیک پوسٹس کی بڑھتی تعداد اور کرکٹ ٹیمز، غیرملکی مہمانوں اور سرکاری اہلکاروں کی نقل و حرکت کے پروٹوکول کی وجہ سے گھنٹوں تک سڑکوں کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شہر کے معاملات اکثر رک سے جاتے ہیں جو اعصابی کیفیت اور ناقص انتظامات کی عکاسی کرتے ہیں حالانکہ ریاستی وسائل کافی مقدار میں دستیاب ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اپنے سیکیورٹی منصوبوں پر نظرِ ثانی یا از سرِ نو سوچنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔
جب سیکیورٹی ایجنسیز سخت پروٹوکولز پر حد سے زیادہ توجہ مرکوز کر دیتی ہیں تو وہ غیر ارادی طور پر دہشت گردوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور وہ اپنی حکمت عملی بدل کر ان ہی اقدامات کو عبور کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ دونوں شہروں کے اعداد و شمار اسی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔
جب دہشت گرد خود کو برتر محسوس کرنے لگتے ہیں تو یہ ریاست کی جانب سے اپنائی گئی سخت اقدامات کی حکمت عملی کو کمزور کر دیتا ہے۔ ان حکمت عملیوں میں ان ممالک پر دباؤ ڈالنا شامل ہے جو شدت پسندوں کو پناہ یا معاونت فراہم کرتے ہیں جبکہ ایسے عناصر کے ساتھ سیاسی تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کا سیاسی طریقہ کار بھی شامل ہے۔
جب عوام سڑکوں پر بالکل مختلف حقائق دیکھتے ہیں تو دہشت گردی کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کی کوششوں پر بھی اعتماد ختم ہوجاتا ہے۔
پاکستان، افغانستان کی طالبان حکومت پر دہشت گرد نیٹ ورکس خاص طور پر ٹی ٹی پی کی حمایت کا سلسلہ بند کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے۔ حال ہی میں دفتر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت صرف اسی صورت میں دوبارہ شروع ہوگی جب کابل سرحد پار دہشت گردی کو روکے جبکہ یہ بھی کہا کہ اہم علاقائی توانائی کے منصوبوں کے مستقبل کو طالبان کی طرف سے عسکریت پسندوں کی حمایت ختم کرنے سے جوڑ دیا جائے۔
یہ افغان نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر کی حالیہ پریس کانفرنس کے جواب میں تھا کہ جس میں انہوں نے افغان تاجروں کو پاکستان کے ذریعے سامان برآمد کرنے سے روکنے کی ہدایت دی تھی۔ بظاہر یہ طریقہ کار کامیاب نہیں ہو رہا کیونکہ مخالفین دیکھ سکتے ہیں کہ ان سے نمٹنے میں پاکستان کتنا مایوس ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے افرادی، مالی، ٹیکنالوجی اور سائبر وسائل کا بہتر استعمال کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے آپریشنز کو اسٹریٹجک طور پر ڈھالنا ہوگا۔ روک تھام کے ظاہری اقدامات پر بہت زیادہ انحصار کرنا جیسے چوکیوں اور سڑکوں پر بڑی رکاوٹیں، معمولاتِ زندگی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنے سے سیکیورٹی کو کمزور کئے بغیر چوکیوں کی تعداد کو کم کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ دہشت گرد واضح اور پوشیدہ دونوں حفاظتی اقدامات سے گذرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اس لئے ایجنسیوں کو تمام شعبہ جات میں اپنی کوششیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔
غیر ملکی اور مقامی اہم شخصیات کی آمد و رفت کے لئے شاہراہوں اور بڑی سڑکوں کو بند کرنے سے سلامتی کے خطرات کم نہیں ہوتے۔ کئی مواقع پر یہ خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں اور عوام میں خوف اور مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ یہ مایوسی خاص طور پر اسلام آباد میں نمایاں ہے جبکہ کوئٹہ میں عدم تحفظ کا احساس اب بھی بہت زیادہ ہے۔
ایک بار پھر اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاست کو اپنی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں کا جامع جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس میں سیاسی، آپریشنل اور حفاظتی پہلوؤں میں ہم آہنگی ہو۔
اگرچہ عوام میں مایوسی اور خوف دہشت گردی کی طرح نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن حکومت اپنے انسداد دہشت گردی کے منصوبوں میں ان انسانی پہلوؤں پر شاذ و نادر ہی غور کرتی ہے۔ ریاستی ادارے اکثر عام شہریوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ شہروں کو محفوظ رکھنے کے لئے قربانیاں دیں۔
اس کے علاوہ لوگوں کو اپنے سامنے ایک بالکل مختلف حقیقت نظر آتی ہے جوکہ یہ ہے کہ سرکاری اہلکار اپنے علاقوں کی حفاظت کے لئے زیادہ تر وسائل خرچ کرتے ہیں، ’ریڈ زونز‘ قائم کرتے ہیں، بڑی سیکیورٹی فورسز کو تعینات کرتے ہیں اور جب بھی اہم اہلکار یا اشرافیہ عوامی مقامات سے گذرتے ہیں تو روزمرہ کی زندگی میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: محمد عامر رانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ